Tuesday 31 March 2015

عاشق رسولﷺ،غازی عبد القیوم

                                  عاشق رسولﷺ،غازی عبد القیوم
                                                                  
                                                                            March, 2015

                                             

                                                               .....سید عارف مصطفیٰ.....

آج مارچ ہے اور ٹھیک 80 برس قبل آج ہی کے دن ایک عاشق رسولﷺ، غازی عبدالقیوم نے ناموس رسالت پہ قربان ہوکر اور پھانسی کا پھندہ چوم کر عشق و عقیدت کے وہ چراغ جلائے تھے کہ جو تا ابد دن فروزاں رہیں گے۔

لیاری کراچی کے رہائشی اس عظیم فرزند نے جو کہ ایک گھوڑا گاڑی چلاتا تھا اور جسکا تعلق ہزارہ سے تھا، بھری عدالت میں گستاخ رسول نتھو رام کو خنجر کے پےدرپے وار کرکے واصل جہنم کردیا تھا، اس ملعون نتھورام نے جسکا تعلق آریہ سماج (حیدرآباد سندھ ) سے تھا، ہسٹری آف اسلام نام کی ایک غلیظ کتاب لکھی تھی کہ جس میں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخیاں کی گئیں تھیں۔ اس کتاب کی اشاعت پہ مسلمانوں کی جانب سے شدید احتجاج کیے جانے پہ انگریزوں کی جانبدار حکومت کے تحت عدالت نے ملعون نتھورام کو ایک سال قید اور معمولی جرمانے کی سزا سنائی، جس پہ مسلمان بہت مشتعل اور مضطرب ہوئے۔

اس نرم سزا نے نتھورام کا حوصلہ بڑھادیا اور اسنے یہ سزا بھی ختم کروانے کیلئے جوڈیشل کمشنر ایم وی فیرس کی عدالت میں اپیل کردی ،جس نے اسکی ضمانت منظور کرلی اور ستمبر میں اس سزا کے خاتمے کیلئے اسکی اپیل کی سماعت کی تاریخ رکھی گئی ، لیکن اس دن غازی عبدالقیوم نے سب کے سامنے آناً فاناً اس دریدہ دہن کا پیٹ ہی چیر ڈالا اور بڑے اطمینان سے گرفتاری دیدی۔ اس موقع پہ وہاں موجود انگریز جج نے غازی سے پوچھا کہ تم نے اس کو قتل کیوں کیا تو غازی نے عدالت میں آویزاں بادشاہ جارج پنجم کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصویر تمہارے بادشاہ کی ہے ،،، کیا تم اپنے بادشاہ کی توہین کرنے والے کو موت کے گھاٹ نہیں اتارو گے۔ اسنے میرے آقا و شہنشاہ کی شان میں گستاخی کی ہے جسے میری غیرت برداشت نہیں کرسکی۔

شمع رسالت کے اس پروانے پہ مقدمہ چلا اور اسنے بڑی شان سے اقبال جرم کیا جس پہ سیشن جج نے اسے سزائے موت سنادی، لیکن اس فیصلے پہ غازی نے بڑی تمکنت سے جج سے کہا " جج صاحب میں آپکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپنے مجھے موت کی سزا دی ہے،،،یہ ایک جان کس گنتی میں ہے ،اگر میرے پاس ایک لاکھ جانیں بھی ہوتیں تو ناموس رسول صلی اللہ و علیہ وسلم پہ نچھاور کردیتا" بعد میں اس سزا کے خلاف متعدد نامور وکلاء میدان میں آگئے لیکن غازی نے اپنے اس اقدام پہ فخر کرنے کی راہ سے سرمو انحراف کرنا گوارا نہ کیا اور بالآخر مسلم زعماء کی یہ کوشش رائیگاں ہوئی اور 19 مارچ کو کراچی کی سینٹرل جیل میںاس عاشق رسول نے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا۔

اس واقعے کا علامہ اقبال نے بہت شدید اثر لیا کیونکہ 4 سال قبل 29 اکتوبر 1931 کو لاہور کے غازی علم الدین شہید کو بھی رسولﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے آریہ راج پال کو مارڈالنے پہ سزائے موت دی گئی تھی (جو کہ میانی صاحب لاہور میں مدفون ہیں اور جنکی پرانوار قبر کی زیارت کا مجھے شرف حاصل ہے)

علامہ اقبال نے لاہور اور کراچی کے ان عاشقان رسول کے حوالے سے ذیل میں درج یہ تین اشعار بعنوان’لاہور اور کراچی‘ کہے جو انکے مجموعے ضرب کلیم میں شامل ہیں۔

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے،فقط عالم معنی کا سفر

ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ

قدرو قیمت میں ہے خون جنکا حرم سے بڑھکر

آہ اے مسلمان تجھے کیا یاد نہیں

حرف لا تدع مع اللہ الہ آخر 

لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی، کیونکہ ابھی ایک اور سانحے نے جنم لینا تھا، انگریز حکومت نے غازی عبدالقیوم کی میت انکے ورثاء کے حوالےکرنے سےانکار کردیا کیونکہ وہ اسے چپ چاپ کسی نامعلوم مقام پہ دفنانا چاہتے تھے جس پہ زبردست عوامی احتجاج نے جنم لیا اور ایک جم غفیر اس رستے پہ جمع ہوگیا کہ جہاں سے یہ میت لے جائی جارہی تھی ، اس پہ انگریزی استبداد کا مکروہ چہرہ کھل کرسامنے آگیا کیونکہ انگریز فوج نے چاکیواڑ کے اس مقام رجب کارڈیلا پہ فائرنگ کرکے 122 افرادکو شہید اور 2000 ہزار سے زائد کو زخمی کرڈالا۔
واضح رہے کہ اب بھی اس سانحے کی یاد مین اس علاقے کے کئی مکینوں نے اپنے مکانوں پہ لگنے والی ان گولیوں کے نشانات کو برقرار رکھا ہوا ہے جو اب انگریزی انصاف کی منہ بولتی تاریخ بن گئے ہیں۔ بالآخر غازی کی میت انکے اہل علاقہ کے سپرد کردی گئی کہ جسے میوہ شاہ قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا، لیکن یہ قبر گمنام ہو چلی ہے، کیونکہ ہم زود فراموش لوگوں نے اس عظیم فرزند کو تقریباً بھلا ہی دیا تھا لیکن یہ اعزار الطاف شکور اور انکے پاسبان کے ساتھیوں کو جاتا ہے کہ انہوں نے یہ سب واقعہ عوام کے سامنے رکھدیا اور انکی قبر کی نشاندہی کرکے 2007 میں اس پہ نہ صرف گل پاشی کی بلکہ اس عظیم شہادت کی یادوں میں ایک عظیم الشان جلوس بھی نکالا، لیکن اب یہ باقی اہل ایمان پہ ہے کہ وہ آج اس غازی کو یاد رکھتے ہیں یا نہیں اور سکی قبر پہ جاتے ہیں یا نہیں ، منبع انوار تو ویسے ہی دمک رہا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment